<< عشق قرآن کی تاثیر >>


الحمد للہ حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه أما بعد.
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
حضرات قارئین :
قرآن مجید  ایک ایسی کتاب ہے ، جو پوری انسانیت کے لئے سر چشمئے ہدایت ہے۔ کفر و ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والے انسانوں کو ہدایت کے نور کی طرف رہنمائی کرنے والی کتاب ہے ۔قرآن مجید بھولے  بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانے والی کتاب ہے ۔ گمراہی کی تاریکیوں میں پڑے ہوئے کو نور ہدایت کی طرف لانے والی کتاب ہے، اللہ بچھڑے ہوؤں کو اللہ سے ملانے والی کتاب ہے ۔
آپ نے لوہے کا مقناطیس دیکھا ہوگا،  جہاں بھی ہو وہ لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے، یہ قرآن مقدس اللہ عزوجل کی رحمتوں کو کھیچنے والا مقناطیس ہے۔ جہان قرآن پڑھا جاتا ہے اللہ کی رحمتیں چھم چھم برستی ہیں ۔ یہ اللہ رب العزت کی رحمتوں کو کھیچنے والا مقناطیس ہے ۔یہ کتاب انسانیت کے لئے دستور حیات ہے ۔انسانیت کے لئے منشور حیات ہے ۔انسانیت کے لئے ضابطہ حیات ہے ، بلکہ پوری انسانیت کے لیے آب حیات ہے ۔ یہ اللہ کا مقدس کلام ہے ۔جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے إرشاد فرمایا -( تبرك بالقرآن فإنه كلام الله) - قرآن سے برکت حاصل کرو یہ اللہ کا کلام ہے ۔
دوستوں ہمیں ابھی پوری طرح اس کی عظمتوں سے واقفیت نہیں ہے - الا ماشاءاللہ -اگر ہو تو اٹھتے بیٹھتے ہم قرآن مقدس کو پڑھنے والے بن جائیں ۔ یہ عجیب کتاب ہے، کچھ لوگ قارئ قرآن ہوتے ہیں، کچھ حافظ قرآن ہوتے ہیں، کچھ عالم قرآن ہوتے  ہیں ۔کچھ داعی قرآن ہوتے ہیں،  کچھ ناشر قرآن ہوتے ہیں، کچھ نصیب والے ،قسمت والے عاشق قرآن ہوتے ہیں ،جس کو اس کی محبت نصیب ہوگئ ،اللہ نے اس کی دنیا اور آخرت کو سنوار دیا ۔ یہ عجیب کتاب ہے،  اللہ اکبر! جنوں نے اس کو سنا تو بے اختیار پکار اٹھے ۔(انا سمعنا قرأنا عجبا ). بيشك ہم نے ایک عجیب و غریب قرآن سنا ہے ۔
اللہ تعالی کا قرآن سننا
قرآن کریم کے ساتھ ہمیں سچا عشق نصیب ہو جائے یہ بڑی قسمت کی بات ہے ۔اس لئے حدیث پاک میں آتا ہے ۔ جیسے گانے والی کوئی عورت گانا گاتی ہے، لوگ بڑی توجہ سے سنتے ہیں، اسی طرح جب کوئی اللہ کا محبوب بندہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ تعالی اس سے بھی زیادہ توجہ سے اس کا قرآن سن رہے ہوتے ہیں ۔فرشتے قرآن سنتے ہیں، پڑھنے کی ان کے اندر استعداد نہیں ہے،فرشتوں میں صرف حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اللہ نے یہ مقام عطا کیا کیونکہ وہ پیامبر تھے ۔(إنه لقول رسول كريم○ذي قوة عند ذي العرش مكين ○مطاع ثم أمين ○)
ترجمہ : بےشک یہ قرآن ایک معزز رسول کا لایا ہوا ہے جو بڑا طاقتور ہے، عرش کا مالک کےنزدیک بڑے رتبے والا ہے اور وہاں کا سردار امانت دار ہے
امام عاصم کوفی- رحمۃ اللہ علیہ - جن کے انداز قرآت میں آج ہم تلاوت کرتے ہیں، ان کے منہ سے عجیب خوشبو آتی تھی، شاگرد حیران کہ حضرت منہ میں الائچی رکھتے یا پھر خوشبو استعمال کرتے ہیں ،طلبہ پوچھتے ہیں، وہ ٹال دیتے ہیں؛  ایک طالب علم جو خدمت بھی کرتا تھا وہ ایک مرتبہ اصرار کرنے لگا کہ حضرت بتا دیجئے ۔اب ادھر سے اصرار ادھر سے انکار ۔مگر وہ بھی جما رہا،اس نے اصرار کی حد کردی، تو فرمانے لگے، میں تو منہ میں  کوئی خوشبو نہیں رکھتا ۔حضرت خوشبو ایسی ہی آتی ہے کہ ایسی خوشبو کبھی سونگھی نہیں ۔حضرت عاصم کوفی -رحمتہ اللہ علیہ - فرمایا کہ ایک رات مجھ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہوئی نبی علیہ السلام نے إرشاد فرمایا عاصم تم سارا دن اللہ کا قرآن پڑھتے اور پڑھاتے ہو تو لاؤ میں تمہارے لبوں کو بوسہ دوں ۔جب سے نبی علیہ السلام نے میرے لبوں کو بوسہ دیا اس وقت سے میرے لبوں سے خوشبو آرہی ہے ۔
قرآن مجید کے ساتھ عشق کی حد تک انسان کی محبت ہو ۔ جب محبت ہوتی ہے تو بندہ پھر اسی کے بارے سوچتا ہے اسی کے ساتھ بیٹھنا گوارا کرتا ہے، اسی کے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہے ،ہمارے سلف صالحین جتنے بھی گزرے سب عاشق قرآن تھے ۔جو عاشق قرآن ہوگا وہ حافظ بھی بن جائے گا، عالم بھی بن جائے گا، قاری بھی بنے گا، عامل بھی بنےگا، داعی بھی بنےگا، ناشر بھی بنےگا، اس لئے کہ اللہ کے قرآن کا عاشق جو بنا ہے ۔ یہی حقیقی خوش نصیب ہے ۔
♧♧اس دور میں خوش نصیب ہے وہ اکبر♧♧
♧♧جس نے قرآن کو کھلا رکھا ہے ۔۔۔♧♧♧♧
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن کی سچی محبت عطا فرما دے ۔(آمین یا رب العالمین )

دعاؤں کا طالب /
شفيع الله الندوى

خادم التدريس /جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بہار - الھند ۔

Comments

  1. ماشاءاللہ لایق تحسین تحریر

    ReplyDelete
  2. شکریہ جناب مولانا ابرار احمد ندوی صاحب

    ReplyDelete
  3. ماشاءاللہ بہت مفید اور نافع مضمون ہے

    ReplyDelete
  4. شکریہ جناب قاری محفوظ الرحمن صاحب

    ReplyDelete
  5. حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی کا بیان خطبات فقیر جلد 25 سے حرف بحرف نقل کیا گیا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ اپنے نام سے شائع کیا ہے ۔ اللہ ایسی بددیانتی سے محفوظ فرمائیں ۔

    ReplyDelete

Post a Comment