یتیم کا مال کھانے کی ایک صورت، جس کی طرف کبھی دھیان نہیں جاتا

حامدا و مصليا أما بعد /

 السلام علیکم و رحمت و برکته.

حضرات قارئین :

آج معاشرہ اتنا گندہ اور پلید ہو چکا ہے کہ ضعیفوں اور یتیموں کے ساتھ ناانصافی انکار شیوہ بن چکا ہے ۔ ان ہی ضعیفوں میں وہ یتیم بھی سرفہرست ہے ،جو اپنے مال،جان اور آبرو کی خود حفاظت نہیں کر سکتا، وہ اپنا حق بھی خود وصول نہیں کر سکتا ۔ یتیم ہے،باپ کا انتقال ہو چکا ہے، خود بچہ ہے ،بھلا وہ کیسے اپنے حقوق وصول کر سکتا ہے ۔قرآن مجید کی متعدد آیات اور کئی دیگر احادیث میں بھی یتیم کا مال کھانے کی وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔ اللہ تعالی سورہ النساء میں ارشاد فرماتا ہے ۔ ان الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا و سيصلون سعيرا (النساء-١٠ )
جو لوگ یتیموں کا مال ناحق طور پر کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا پاک ارشاد ہے کہ :یتیم کا مال ناحق کھانے والا شخص قیامت کے روز اس حالت میں اٹھایا جائےگا کہ پیٹ کے اندر سے آگ کی لپٹیں اس کے منہ،ناک،کانوں اور آنکھوں تک نکل رہی ہوں گی۔(ابن کثیر۔ ١\٤٠٣)
         حضرات قارئین // ویسے تو یتیم کے مال کو کھانا،اس کے حق کو مارنا، اس کے ساتھ بد سلوکی کرنا اور اس کے ساتھ ناانصافی کرنے کو عام طور پر ہر انسان برا سمجھتا ہے اور بے رحمی قرار دیتا ے۔ لیکن اس کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ عام طور پر لوگوں کا انکی طرف دھیان نہیں جاتا اور یہ خیال تک نہیں گزرتا کہ ہم یتیموں کا مال کھا رہے ہیں ۔ حالانکہ وہ خود بھی یتیموں کا مال کھا رہے ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات دوسروں کو بھی یتیموں کا مال کھلا دیتے ہیں ۔
     ان میں سے ایک بات وہ ہے جو ناواقف اور نادان لوگوں اور طرح طرح کی رسموں کے شکار افراد پائ جاتی ہے ۔وہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کسی کے میت ہو جائے تو تعزیت کے لئے اس کی برادری کے لوگ اور دیگر دوست و احباب آتے ہیں ۔اور اس کے گھر میں آکر پڑاؤ ڈال دیتے ہیں ۔ صبح، شام اور دوپہر کا کھانا بھی میت والوں کے یہاں کھاتے ہیں ۔کئ کئ دن تک ان کا یہ معمول چلتا رہتا ہے ۔بجائے اس کے کہ میت والوں کی مدد جاتی، الٹے ان پر بوجھ بن جاتے ہیں ۔حالانکہ یہ بات آداب میں سے ہے اور پڑھے لکھے لوگوں میں بھی عام طور پر یہ طریقہ رائج ہے کہ جن کے ہاں میت ہو جاتی ہے کہ ان کے دوست احباب اور قریبی رشتے دار ان کے ہاں پکا ہوا کھانا بھیجتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت بھی یہی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ غم میں مبتلا ہوتے ہیں، کھانے کا سامان اور اسے تیار کر نے کا کام اب ان کے لئے آسان نہیں رہا ۔ بلکہ غم کی وجہ سے ان کا کھانا کھانے کو  جی بھی نہیں چاہتا تو شریعت نے یہ ادب بتلایا کہ تم پکا پکایا کھانا لے جا کر اپنے سامنے کھلا دو تو کھانا کھالیں گے ورنہ بیچارے روتے پیٹتے ہی رہ جائیں گے۔بھوکے پڑے رہ جائینگے ۔یہ شریعت کا بتلایا ہوا طریقہ ہے لیکن ناواقف لوگ اس کے برعکس کرتے ہیں۔غلط طرز عمل اپنا کر میت والوں پر الٹا بوجھ ڈال دیتے ہیں ۔
            اس میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مثلا گھر کے کسی سربراہ کا انتقال ہوگیا ۔اس کے ورثاء میں اس کی بیوی اور چھوٹے بڑے بچے شامل ہوتے ہیں ۔بعض مرتبہ ایسے وارث بھی ہوتے ہیں جو اس وقت وہاں نہیں ہوتے ، کسی سفر میں ہوتے ہیں یا بیرونملک مقیم ہوتے ہیں ۔اب انتقال کے بعد میت کے گھر میں موجود سامان جیسے آٹا، گھی،  مرچ ، دال چاول وغیرہ سے ہی کھانا تیار کیا جاتا ہے ۔حالانکہ جونہی میت کا انتقال ہوا فورا اس کا مال اس کی ملکیت سے نکل گیا، اب اسکی ملکیت کچھ بھی نہیں رہا،  اس کا بچھونا، اس کے کپڑے،  کھانے پینے کا سامان حتی کہ جو دوائیں اس کی زیر استعمال تھیں ،اب وہ بھی اس کی ملکیت سے ہو گیئں بلکہ وارثوں کی ملکیت میں آگئیں ۔ ان وارثوں میں بسا اوقات یتیم بھی ہوتے ہیں، بعض مرتبہ ایسا وارث بھی ہوتا ہے جو عقل نہیں رکھتا ،بعض اوقات ایسا وارث بھی ہوتا ہے جو وہاں موجود نہیں ہوتا۔اب یہاں یہ ہوا کہ غیر موجود وارث کی مرضی اور اجازت کے بغیر اس کا مال مہمانوں کھلا دیا، نابالغ بچے کی اجازت کا شرعا کوئ اعتبار ہی نہیں، اسی طرح دماغ  سے معذور شخص اگر کسی کو کچھ دے دے تو لینے والا اس کا مالک نہیں بنتا جبکہ اس صورت میں نابالغ اور دماغ سے محروم وارث کا مال مہمان کو کھلا دیا گیا ،اور کھانے والوں نے بھی بلا جھجک یتیم کا مال کھا لیا حالانکہ قرآن یہ وعید ہے کہ -
جو لوگ یتیموں کا مال ناحق طور پر کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور جہنم میں داخل کئے جائینگے ۔ اللہ تعالی ہمیں اور تمام مسلمانوں کو یتیم کا مال ناحق طور پر کھانے بچائے اور اسکی صحیح کفالت کرنے والا بنائے۔آمین یا رب العالمین ۔

دعاؤں کا طالب //
شفیع اللہ الندوی 
خادم التدريس / جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بہار -الھند ۔


Comments

  1. ماشاءاللہ
    بہت خوب بہت سودمند مضمون ہے
    اللّٰہ ہمیں یتیموں کا خیال رکھنے والا بنائے آمین

    ReplyDelete

Post a Comment