قرآن آپ سے مخاطب ہے
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
((اللہ تعالی اولاد اپنی مشیت و حکمت سے عطا فرماتے ہیں ))
[[لله ملك السماوات والأرض يخلق ما شاء يهب لمن يشاء اناثا و يهب لمن يشاء الذكور أو يزوجهم ذكرانا و اناثا و يجعل من يشاء عقيما إنه عليم قدير ]]
الله عزوجل کا فرمان ہے (سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی ہے ۔وہ چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے، وہ جس کو چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے، لڑکے دیتا ہے یا پھر ان کو ملا جلا کر لڑکے بھی دیتا ہے اور لڑکیاں بھی اور جس کو چاہتا ہے، بانج بنا دیتا ہے ۔یقینا وہ علم کا بھی مالک ہے، قدرت کا بھی مالک۔) ( الشوری: ٤٩-٥٠)
حضرات قارئین :
آسمانوں اور زمینوں اور ان میں موجود تمام چیزوں پر سلطنت و حکومت، بادشاہت وراج صرف اور صرف الله کا ہے، وہ اپنے جملہ افعال میں خود مختار ہے، جو ہوگا اسی کی مرضی سے ہوگا اور جو اس کی مرضی و مشیت کے خلاف ہوگا وہ ہو ہی نہیں سکتا ۔چنانچہ اس نے چاہا، تو یہ کائنات اور اس میں موجود مختلف مخلوقات و موجودات وجود میں آگئیں اور جب چاہے گا یہ سب نیست و نابود ہو جائیں گے، اس کی سلطنت میں کوئی دخیل نہیں، شریک نہیں، مشیر نہیں، معاون و مددگار نہیں جو کچھ ہے اسی کا ہے، جو کچھ ہوگا، اسی کے حکم سے ہوگا، حکم صرف اسی کا چلے گا، اس کے حکم کے آگے سب مجبور و مقہور ہیں، اس کی فرمانبرداری سے کسی کو مفر نہیں ۔
ان آیات میں اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں پر اپنی بادشاہت و سلطنت کا تذکرہ فرمانے کے بعد یہ فرمایا کہ وہ جو چاہتا پیدا کرتا ہے، یعنی وہ اگر کسی چیز کو پیدا کرنا چاہے تو وہ یقینا وجود میں آتی ہے اور جس کا ارادہ نہ کرے،وہ ہو نہیں سکتا، کسی بھی چیز وجود کے لئے اس کی مشیت ضروری ہے، کسی چیز کو پیدا کر نے کے سلسلے میں جیسے کوئی اسے مجبور نہیں کر سکتا، ویسے ہی جب وہ کسی کو وجود بخشنا چاہے، تو کوئی حائل بھی نہیں ہو سکتا ۔
آگے فرمایا :وہ جس کو چاہے صرف لڑکیاں دیتا ہے جیسے حضرت لوط علیہ السلام کہ آپ کو صرف لڑکیاں ملیں اور جس کو چاہے صرف لڑکے دیتا ہے جیسے ابراہیم علیہ السلام کہ آپ کے صرف لڑکے تھے اور جس کو چاہے دونوں عطا کردیتا ہے، جیسے حضرت محمد عربی- صلی اللہ علیہ و سلم- کہ آپ کے لڑکیاں بھی تھیں اور لڑکے بھی اور جس کو چاہے بانج ولا ولد بنا دیتا ہے، جیسے حضرت یحی اور حضرت عیسی علیہما السلام ۔
یہاں اللہ تعالی نے اولاد کے اعتبار سے چار قسمیں بیان فرمائی ہیں کہ کسی کو صرف لڑکیاں ملتی ہیں، کسی کو صرف لڑکے، کسی کو دونوں لڑکے اور لڑکیاں اور کسی کو کچھ نہیں، یہ خدائے تعالی کی قدرت کی ایک نشانی ہے، جو اولاد کے اعتبار سے بیان کی گئی، اللہ سبحانه تعالی نے ماں باپ کے اعتبار سے بھی چار قسمیں ہی بنائ ہیں ۔ چنانچہ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو ماں باپ کے بجائے مٹی سے پیدا کیا، حضرت حوا علیھا السلام کو بغیر عورت کے صرف (حضرت آدم علیہ السلام )سے پیدا فرمایا، بقیہ سارے انسانوں کو ماں باپ سے پیدا فرمایا سوائے حضرت عیسی علیہ السلام کے کہ آپ کو بغیر مرد کے صرف (حضرت مریم علیہما السلام )سے پیدا فرمایا، اس سے دونوں اعتبار سے اللہ کی کمال قدرت کا ظہور ہو گیا ۔ ( ابن کثیر :٧\٢١٦)
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ پہلی مرتبہ لڑکیوں کا ذکر پہلے کیا گیا اور لڑکوں کا بعد میں جب کہ لڑکا مقدم ہے جیسا کہ آگے (او يزوجهم ذكرانا و اناثا )میں مقدم رکھا گیا، اس میں در اصل مصلحت یہ ہے کہ اس میں لوگوں کی بے بسی و مجبوری کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے وہی پیدا کرتا ہے ،نہ وہ جو ماں باپ چاہتے ہیں کیونکہ عام طور پر والدین کی مرضی و چاہت تو یہ ہوتی ہے کہ لڑکا ہو ،مگر اللہ کی مشیت اس پر غالب آجاتی ہے اور ان کو لڑکی ملتی ہے جسے لوگ ایک مصیبت و بوجھ سمجھتے ہیں ۔نیز اس طرز کلام سے جاہلیت کے اس نظریہ کی تردید بھی مقصود ہے کہ وہ لوگ لڑکیوں کو مصیبت اور بوجھ سمجھ کر ان کو مؤخر کر دیتے تھے ان کی پیدائش کو موجب عار و شرمندگی سمجھتے تھے ۔نیز لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے گویا ان کا ذکر مقدم فرما کر ان کے والدین کو لڑکیوں کے سلسلے میں وصیت کردی گئی کہ ان کا خیال رکھا جائے، کیونکہ وہ لڑکوں کی بنسبت کمزور و ضعیف ہوتی ہیں، لہذا وہ زیادہ قابل توجہ ہیں ۔۔حدیث پاک میں ہے 《جو کوئ ان لڑکیوں کے سلسلہ میں آزمائش میں ڈالا جائے اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو وہ اس کے لئے جہنم سے آڑ ہوں گیں ۔(رواہ البخاری ) نیز اس میں کسی عورت کے بطن سے پہلے لڑکیوں کا پیدا ہونا بابرکات ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے ۔حضرت واثلہ بن اسقع سے مرفوعا روایت ہے ۔ جس عورت سے پہلے لڑکی پیدا ہو تو بابرکات ہوتی ہے ۔ اس پر آپ نے اسی آیت سے استدلال فرمایا کہ پہلے لڑکیوں کا ذکر آیا ہے ۔(تفسیر قرطبی ۔١٨\٥٠١)
پھر قرآن کریم نے لڑکوں کو لڑکیوں پر جو فضیلت حاصل ہے، اس کو بھی فراموش نہیں کیا، بلکہ ان کی رعایت کرتے ہوئے دوسری مرتبہ میں لڑکوں کے ذکر کو مقدم فرما دیا جو ان کا حق ہے، نیز پہلی مرتبہ میں الذکور کو معرفہ لا کر بھی تلافی فرما دی،نیز معرفہ لا کر لوگوں کے ذہنوں میں لڑکوں کے معہود و موجود ہونے اور لڑکوں کی فطری طلب و تمنا کی جانب بھی اشارہ فرمایا ۔
خلاصہ یہ کہ سارے جہانوں پر راج صرف اللہ کا ہے، لہذا وہ اس میں جہاں اور جیسا چاہے تصرف فرماتے ہیں جو چاہے پیدا فرماتے ہیںاور جسے چاہے اولاد عطا فرماتے ہیںجسے چاہے محروم وتہی دامن کردیتے ہیں مگر یہ سب کچھ مصلحتوں کے پیش نظر ہوتا ہے، لہذا جس سے اولاد ملے اور جو ملے اس پر راضی و خوش رہنا چاہیے اور جسے کچھ نہ ملے، اس سے بھی اللہ کے علیم و خبیر ہونے کا دھیان رکھنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ میرے لئے اسی میں مصلحت ہے۔ ہاں البتہ اللہ سے مسلسل دعا اہتمام کرنا چاہیے ۔اور پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکیاں بھی انتہائ قابل توجہ ہیں ۔ لہذا لڑکوں ہی کی طرح لڑکیوں سےبھی محبت رکھنا، ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے ۔
اللہ تعالی ہمیں اور تمام مسلمانوں کو لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ برابری کرنے والا اور دونوں محبت کی نگاہ سے دیکھنے والا بنائے ۔آمین یا رب العالمین ۔
دعاؤں کا طالب /
شفیع اللہ الندوی
خادم التدريس/جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بہار ۔الہند
ثم آمین
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت خوب
اللّٰہ خوب خوب ترقیات سے نوازے
Fantastic
ReplyDeleteMasha Allah