(( دو کمزور - یتیم اور عورت ))

حامداو مصلياأما بعد ۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ 
حضرات قارئین :
                 عن أبي شريح خويلد بن عمرو الخزاعى رضى الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم "اللهم " إنى أحرج حق الضعيفين " اليتيم و المرأة ".(حديث حسن رواه النسائي بإسناد جيد).
حدیث کا مطلب //
     رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے إرشاد فرمایا کہ: 
  " اے اللہ! دو قسم کے ضعیفوں کی حق تلفی کرنے کو میں گناہ قرار دیتا ہوں۔ "  مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان دو قسم کے ضعیفوں کا حق پامال کرےگا ، وہ سخت گنہگار ہوگا اور سزا کا مستحق ہوگا۔ ان میں ایک یتیم کا ذکر فرمایا اور دوسرے، عورت کا۔
گزشتہ کالم میں یتیم کا ذکر کیا گیا تھا، جس یتیم اپنا حق وصول نہیں کرسکتا،  اسی طرح عورت بھی جسمانی، خلقی اور پیدائشی طور پر کمزور ہے ۔اگر کوئی مرد اس کا حق مار لے تو عموما وہ بیچاری اپنا حق وصول کرنے پر قادر نہیں ہوتی ۔جس کا ذکر مذکورہ بالا حدیث میں ہے، وہ عورت ہے۔ عورتوں کے سلسلے میں شریعت نے بہت سے احکام دیئے ہیں ۔ ایک حکم یہ ہے کہ :
۱-《و عاشروھن بالمعروف  》(النساء /۱۹ )۔ " عورتوں کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزاروں ۔" مراد  یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور محبت و شفقت کا برتاؤ کرو، خیر خواہی اور ہمدردی کا برتاؤ کرو۔
۲- دوسرا حکم یہ ہے کہ اگر ایک سے زائد نکاح کرو تو پھر ان کے درمیان برابری کرو، اگر یہ خطرہ ہو کہ ایک سے زائد بیبیوں کی صورت میںان کے درمیان نہیں کر سکو گے تو پھر ایک ہی کو نکاح میں رکھو ۔ إرشاد خداوندی ہے۔
{فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة أو ما ملكت أيمانكم  }- النساء،
" اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے  ) یکساں سلوک نہ کر سکوگے تو ایک (کافی ہے  ) یا باندی جسکے تم مالک ہو۔"
فرض کریں اگر کسی کے پاس دو بیبیاں ہیں کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک رات ایک بیوی کے پاس گزارے اور دوسری رات دوسری بیوی کے پاس۔یہ جائز نہیں کہ ایک بیوی کے پاس دو راتیں گزارے اور دوسری بیوی کے پاس ایک رات۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ازواج کے ساتھ برابری کرتے تھے ۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمت اللہ علیہ کی دو بیبیاں تھیں ۔آپ ان کے درمیان برابری کا پورا اہتمام فرماتے ۔چنانچہ خانقاہ میں ترازو رکھی ہوئی تھی ۔جب بھی کہیں سے کوئی تحفہ آتا تو تول کر آدھا آدھا کرتے اور اسے ہر ایک کے گھر میں بھیجتے ۔محض اندازہ سے کام نہ چلاتے ۔کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ نے دو شادیاں کرکے زیادہ شادیوں کا راستہکھول دیا ۔ فرمایا : راستہ کھول دیا یا بند کر دیا؟  میں نے تو راستہ بند کر دیا ۔ مجھے دیکھنے والا کبھی دو شادیاں نہیں کرےگا ۔مجھے جو تکلیف اور محنت و مشقت اٹھانی پڑتی ہے ۔اسے دیکھ کر کسی کو دو شادیاں کرنے کی جرأت نہیں ہوگی ۔
          محبت کے اعتبار سے برابری کرنا ممکن نہیں 
البتہ ایک بات یہ ہے کہ یہ حکم عمل میں برابری سے متعلق ہے ۔دل کی محبت میں برابری کے متعلق نہیں کیونکہ محبت کے اعتبار سے برابری کرنا ممکن نہیں ۔قرآن مجید میں ہے ۔
( و لن تستطيعوا أن تعدلوا بین النساء ) النساء -۱۲۸-
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی کی طرف زیادہ جھک جاؤ،  چنانچہ اسی آیت کے اگلے حصے میں اس سے منع کیا گیا کہ :( فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقة ) 
ایسا نہ کرنا کہ ایک ہی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں  ) چھوڑ دو کہ  گویا وہ الگ رہی ہے ۔ " معلقہ" کا مطلب ہے کہ وہ نہ شادی شدہ کی طرح ہو اور نہ غیر شادی شدہ کی طرح ۔ شادی شدہ کی طرح تو اس لئے نہیں کہ تم اس کا حال پوچھتے نہیں اور غیر شادی شدہ (کنواری  ) کی طرح اس لئے نہیں کہ تمہارے نکاح کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے کسی اور سے نکاحنہیں کرسکتی ہے ۔ایسا رویہ اختیار کرنا ناجائز ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اور تمام مسلمان بھائیوں کو عورتوں کی حق تلفی سے بچائے ۔آمین ثم آمین ۔
دعاؤں کا طالب //
شفیع اللہ الندوی 
خادم التدريس -جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بہار ۔ الہند۔ 

Comments

Post a Comment