بچہ کو پانچ چیزوں کی تعلیم دیں
حضرات قارئین :
بچوں کو ادب سکھانا اور دینی تعلیم دلانا واجب اور ضروری ہے، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
بچوں کو ادب سکھانا اور دینی تعلیم دلانا واجب اور ضروری ہے، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
يأيها الذين آمنوا قوا أنفسكم و اهليكم نارا.
اے ایمان والو خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، جب آدمی اپنے بچوں کی صحیح تربیت نہیں کرےگا، اچھے اخلاق وآداب نہیں سکھائےگا،اسکو اسلامی تعلیم نہیں دلائے گا،اللہ تعالٰی کے احکام نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں سے واقف نہیں کرائے گا،توکیسے انکو جہنم کی آگ سے بچا سکےگا ۔ایک مسلمان ماں باپ کو چاہیے کہ ابتدا ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات اور صحابہ وسلف صالحین کے عملی نمونوں کی روشنی میں اپنے بچہ کی تعلیم و تربیت کی فکر کریں اور اس کے لئے اپنی کوشش صرف کریں،آغاز اچھا ہوگا تو باقی زندگی بھی اچھی ہوگی اور امید ہے کہ انشاءاللہ خاتمہ اور انجام بھی بخیر ہوگا، کیونکہ کوئی بچہ یوں ہی بڑا نہیں بن جاتا ہے بلکہ انکی تعلیم و تربیت کے پیچھے انکے ماں باپ کا بہت بڑا رول ہوتا ہے ، اس لیے کہ جو لوگ اللہ والے ہوئے، ان کی ماؤں نے ان کی تربیت میں اپنے آپ کو کس طرح کھپایا ان کو کندن اور انسان بنانے میں کس قدر جد و جہد اور مسلسل سعئ پیہم سے کام لیا۔
اوروں کے بنانے سے تقدیر نہیں بنتی
ہم جہد مسلسل سے تقدیر سواروں گے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین بچوں کو پانچ طرح کی چیزیں سکھانے کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے ۔
۱_ توحید اور ارکان اسلام کی تعلیم ۔ ۲_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور سیرت کی تعلیم ۔ ۳_ قرآن سکھانا ۔ ٤_ دعائیں یاد کرانا۔ ۵_ آداب و اخلاق کی تعلیم دینا ۔ کہنے کو تو یہ پانچ چیزیں ہیں لیکن ان پانچ چیزوں میں پورا دین آگیا، اگر بچہ کو ان پانچوں چیزوں کی تعلیم دیدی جائے تو وہ کامل و مکمل اور پکا سچا مسلمان بن جاتا ہے ۔
حضرات قارئین : اپنے بچوں کو سب سے پہلے اللہ کی پہچان کرائیں، بچہ جب زبان کھولے اور کچھ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے اس کی زبان سے لفظ اللہ نکلوائیں اور اس سے لفظ اللہ کی رٹ لگوائیں، اور جب اس کے اندر بولنے کی اور زیادہ طاقت آجائے اور مرکب ألفاظ بولنے لگے تو سب سے پہلے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) سکھایا جائے ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سب سے پہلا بول اپنے بچوں کو لا الہ الا اللہ سکھاؤ، اور مرتے وقت بھی لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔ معلوم ہوا کہ ہر مسلمان ماں باپ کو چاہیے کہ جب بچہ بولنے لگے تو سب سے پہلے اس کو اللہ اور رسول کی پہچان کرائی جائے، قرآن کریم سکھایا جائے، مسنون دعائیں اور دین کی موٹی موٹی باتیں یاد کرائی جائیں، سب سے پہلے دین مقدم ہے، لہذا پہلے اس کے دین کی فکر کریں، جب اس کا دین محفوظ ہو جائے پھر جو چاہے پڑھے، اب اس کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں، لیکن آج عموما ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہی بچہ کچھ سنبھلا اس کو غیر اسلامی ماحول کے حوالہ کردیا جاتا ہے، غیر مسلموں کے اسکولوں میں کفر و شرک سے آلودہ فضا میں وہ آنکھیں کھولتا ہے اور ماں باپ بھی الف اور با کے بجائے اسکی زبان سے اے، بی،سی،ڈی سنکر فخر وغرور سے سر اونچا کرتے ہیں، اس سوچئے کہ ایسے میں اس کی زندگی میں دین اور قرآن کیسے آئے گا ۔
آج کل گلی گلی میں نرسری اسکول، پرائمری اسکول، جونیئر ہائی اسکول، انٹر کالج دن بدن کھلتے نظر آرہے ہیں، مگر ان میں حیات طیبہ، عمل صالح اور تربیت کا نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اللہ ہمیں صحیح سمجھ اور صحیح فکر عطا فرمائے، عمل صالح اور حیات طیبہ کا علمبردار بنائے، بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا محور بنائے ۔ آمین ثم آمین
دعاؤں کا طالب
شفیع اللہ الندوی
خادم التدريس - جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بہار ۔ الہند۔
حضرات قارئین : اپنے بچوں کو سب سے پہلے اللہ کی پہچان کرائیں، بچہ جب زبان کھولے اور کچھ بولنے کی کوشش کرنے لگے تو سب سے پہلے اس کی زبان سے لفظ اللہ نکلوائیں اور اس سے لفظ اللہ کی رٹ لگوائیں، اور جب اس کے اندر بولنے کی اور زیادہ طاقت آجائے اور مرکب ألفاظ بولنے لگے تو سب سے پہلے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) سکھایا جائے ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سب سے پہلا بول اپنے بچوں کو لا الہ الا اللہ سکھاؤ، اور مرتے وقت بھی لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔ معلوم ہوا کہ ہر مسلمان ماں باپ کو چاہیے کہ جب بچہ بولنے لگے تو سب سے پہلے اس کو اللہ اور رسول کی پہچان کرائی جائے، قرآن کریم سکھایا جائے، مسنون دعائیں اور دین کی موٹی موٹی باتیں یاد کرائی جائیں، سب سے پہلے دین مقدم ہے، لہذا پہلے اس کے دین کی فکر کریں، جب اس کا دین محفوظ ہو جائے پھر جو چاہے پڑھے، اب اس کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں، لیکن آج عموما ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہی بچہ کچھ سنبھلا اس کو غیر اسلامی ماحول کے حوالہ کردیا جاتا ہے، غیر مسلموں کے اسکولوں میں کفر و شرک سے آلودہ فضا میں وہ آنکھیں کھولتا ہے اور ماں باپ بھی الف اور با کے بجائے اسکی زبان سے اے، بی،سی،ڈی سنکر فخر وغرور سے سر اونچا کرتے ہیں، اس سوچئے کہ ایسے میں اس کی زندگی میں دین اور قرآن کیسے آئے گا ۔
آج کل گلی گلی میں نرسری اسکول، پرائمری اسکول، جونیئر ہائی اسکول، انٹر کالج دن بدن کھلتے نظر آرہے ہیں، مگر ان میں حیات طیبہ، عمل صالح اور تربیت کا نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اللہ ہمیں صحیح سمجھ اور صحیح فکر عطا فرمائے، عمل صالح اور حیات طیبہ کا علمبردار بنائے، بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا محور بنائے ۔ آمین ثم آمین
دعاؤں کا طالب
شفیع اللہ الندوی
خادم التدريس - جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بہار ۔ الہند۔
ماشاءاللہ آپ نے بہت ہی بہترین اور عمدہ باتیں لکھی ہیں
ReplyDeleteاللہ آپ کی کوشش کو کامیاب بنائیں
اور ہم سب کو اور خصوصاً گارجین حضرات کو اس پر عمل پیرا بناےء
ماشاء اللہ نہایت ہی عمدہ تحریر
ReplyDeleteMashaallah very good maiMaulsab
ReplyDeleteماشاءاللہ نہایت ہی عمدہ اور نافع مضمون ہے
ReplyDeleteاللّٰہ حضرت مولانا صاحب کو اجرِ جزیل اور مجھے اور جملہ امت محمدیہﷺ کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے
آمین یا رب العالمین ۔ بہت بہت شکریہ جناب مفتی رضوان اللہ صاحب
ReplyDeleteMasha Allah bahut achhi beaten hain
ReplyDeleteThanks
ReplyDeleteबहुत ही अच्छा फायदा हासिल करनेवाला लेख है
ReplyDelete