كيوں روتے ہو بھائ؟
الحمد للہ وکفی وسلام علی رسوله الكريم أما بعد.
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرات قارئین كريم!
دوستوں اس دنیا میں دو طرح کے افراد پائے جاتے ہیں۔ کوئی جسم کے اعتبار سے طاقتور ہوتا ہے، تو کوئی جسمانی اعتبار سے کمزور ہوتا ہے، کوئی کنبہ اور افراد کے لحاظ سے مضبوط اور قوی ہوتا ہے، تو کوئی مال و دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو طاقتور سمجھتا ہے، تو کوئی فقرہ و فاقہ، بدحالی اور تنگدستی کی وجہ سے اپنے آپ کمزور اور بےبس تصور کرتا ہے ۔
معاشرہ اور سوسائٹی میں کئی طرح کے کمزور اور ضعفاء پائے جاتے ہیں، جنکا تعاون کرنے کے بجائے، لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اور اس کے حقوق کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، جس طرح دور جاہلیت میں ہر طاقتور کمزورں کو دبا دیتا تھا، اور ظلم و ستم کو اپنے لئے جائز سمجھتا تھا ۔ لیکن جب اسلام آیا تو معاشرے کے دبے کچلے، اور بکسوں، معذورں کو اس کا حق دلایا ۔ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جانثاروں کو غریبوں ، مسکینوں اور لاچاروں کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کا حکم دیا ۔
دوستوں کسی گاؤں میں ایک بوڑھا نابینا رہتا تھا ۔اس نے تین دن سے کچھ نہ کھایا تھا ۔وہ اپنے گھر کے باہر بیٹھا چپکے چپکے رو رہا تھا ۔ادھر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، انہوں نے اس سے پوچھا :بھائ کیوں روتے ہو؟ کیا دکھ ہے تمہیں؟ ۔بوڑھے نے کہا :بھائ صاحب! کیا بتاؤں؟ تین دن سے ایک آدمی کا انتظار ہے ۔وہ بہت اچھا آدمی ہے ۔میرے ساتھ وہ بہت اچھا برتاؤ کرتا ہے ۔ خدا جانے وہ کیوں نہیں آیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بوڑھے سے پوچھا؛ اس بھلے آدمی کا نام کیا ہے؟ میں بستی کے سبھی لوگوں کو جانتا ہوں ۔
بوڑھے نے جواب دیا :" نام تو میں نہیں جانتا ۔میں نے کئی بار نام دریافت کیا ۔اس نے نہیں بتایا ۔بس یہی کہتا تھا :"میں اللہ کا بندہ ہوں ۔اللہ کے بندوں کے کام آتا ہوں ۔"اس کی آواز میں بڑی نرمی تھی ۔وہ آکر میرے گھر کی صفائی کرتا تھا، کپڑے دھوتا تھا، مجھے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا تھا، (بوڑھے کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے )۔
اس نے پھر کہا : پتا نہیں کیا بات ہے؟ تین دن ہو گئے، وہ کیوں نہیں آیا؟ ضرور کسی تکلیف میں ہوگا ۔اے اللہ اس پر رحم فرما ۔یہ کہہ کر بوڑھا خاموش ہو گیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے، یہ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہوسکتے ہیں ۔انہوں نے آہ بھری ۔بوڑھے سے کہا : وہ ہمارے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔آج ان کے انتقال کو تین دن ہوگئے ہیں ۔
دوستوں اس واقعہ سے ہر فردکو سبق لینا چاہیے کہ خلیفہ وقت اس بوڑھے کی کس طرح خدمت کرتے تھے ۔اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ان جیسے افراد کی خدمت کرنے والا بنائے ۔آمین یا رب العالمین ۔
دعاؤں کا طالب! شفیع اللہ الندوی
خادم التدريس! جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بہار ۔ الھند ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرات قارئین كريم!
دوستوں اس دنیا میں دو طرح کے افراد پائے جاتے ہیں۔ کوئی جسم کے اعتبار سے طاقتور ہوتا ہے، تو کوئی جسمانی اعتبار سے کمزور ہوتا ہے، کوئی کنبہ اور افراد کے لحاظ سے مضبوط اور قوی ہوتا ہے، تو کوئی مال و دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو طاقتور سمجھتا ہے، تو کوئی فقرہ و فاقہ، بدحالی اور تنگدستی کی وجہ سے اپنے آپ کمزور اور بےبس تصور کرتا ہے ۔
معاشرہ اور سوسائٹی میں کئی طرح کے کمزور اور ضعفاء پائے جاتے ہیں، جنکا تعاون کرنے کے بجائے، لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اور اس کے حقوق کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، جس طرح دور جاہلیت میں ہر طاقتور کمزورں کو دبا دیتا تھا، اور ظلم و ستم کو اپنے لئے جائز سمجھتا تھا ۔ لیکن جب اسلام آیا تو معاشرے کے دبے کچلے، اور بکسوں، معذورں کو اس کا حق دلایا ۔ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے جانثاروں کو غریبوں ، مسکینوں اور لاچاروں کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے کا حکم دیا ۔
دوستوں کسی گاؤں میں ایک بوڑھا نابینا رہتا تھا ۔اس نے تین دن سے کچھ نہ کھایا تھا ۔وہ اپنے گھر کے باہر بیٹھا چپکے چپکے رو رہا تھا ۔ادھر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، انہوں نے اس سے پوچھا :بھائ کیوں روتے ہو؟ کیا دکھ ہے تمہیں؟ ۔بوڑھے نے کہا :بھائ صاحب! کیا بتاؤں؟ تین دن سے ایک آدمی کا انتظار ہے ۔وہ بہت اچھا آدمی ہے ۔میرے ساتھ وہ بہت اچھا برتاؤ کرتا ہے ۔ خدا جانے وہ کیوں نہیں آیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بوڑھے سے پوچھا؛ اس بھلے آدمی کا نام کیا ہے؟ میں بستی کے سبھی لوگوں کو جانتا ہوں ۔
بوڑھے نے جواب دیا :" نام تو میں نہیں جانتا ۔میں نے کئی بار نام دریافت کیا ۔اس نے نہیں بتایا ۔بس یہی کہتا تھا :"میں اللہ کا بندہ ہوں ۔اللہ کے بندوں کے کام آتا ہوں ۔"اس کی آواز میں بڑی نرمی تھی ۔وہ آکر میرے گھر کی صفائی کرتا تھا، کپڑے دھوتا تھا، مجھے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا تھا، (بوڑھے کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے )۔
اس نے پھر کہا : پتا نہیں کیا بات ہے؟ تین دن ہو گئے، وہ کیوں نہیں آیا؟ ضرور کسی تکلیف میں ہوگا ۔اے اللہ اس پر رحم فرما ۔یہ کہہ کر بوڑھا خاموش ہو گیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے، یہ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہوسکتے ہیں ۔انہوں نے آہ بھری ۔بوڑھے سے کہا : وہ ہمارے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔آج ان کے انتقال کو تین دن ہوگئے ہیں ۔
دوستوں اس واقعہ سے ہر فردکو سبق لینا چاہیے کہ خلیفہ وقت اس بوڑھے کی کس طرح خدمت کرتے تھے ۔اللہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو ان جیسے افراد کی خدمت کرنے والا بنائے ۔آمین یا رب العالمین ۔
دعاؤں کا طالب! شفیع اللہ الندوی
خادم التدريس! جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بہار ۔ الھند ۔
آمین ثم آمین
ReplyDelete