عورت کا پسلی سے پیدا ہونا یہ کوئی عیب نہیں

الحمد للہ وبک نستعین اما بعد ۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ ۔
حضرات قارئین :
     نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے إرشاد فرمایا ۔ استوصوا بالنساء خيرا فإن المرأة خلقت من ضلع و إن اعوج ما في الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وان تركته، لم يزل اعوج فاستوصوا بالنساء. (متفق عليه )
ترجمه / "" مجھ سے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی نصیحت قبول کرو، اس لئے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والا حصہ ہوتا ہے پس اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو اسے توڑ دوگے اور اگر اسے چھوڑ دوگے تو اسی طرح ٹیڑھی ہی رہے گی ۔""
اس روایت بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا،  لہذا جس طرح پسلی کے اندر ٹیڑھ پن ہوتا ہے، اس کے اندر بھی مرد کے مزاج کے اعتبار سے ٹیڑھ پن ہوگا یعنی مرد سے اس کا مزاج مختلف ہوگا ۔مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسے اسی حال میں برداشت کرے ورنہ اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کریگا تو وہ ٹوٹ جائیگی اور ایک روایت میں ہے کہ ۔(کسرھا طلاقها )-رواہ مسلم ۔ اس کا ٹوٹنا اس کو طلاق دینا ہے ۔اس معلوم ہوا کہ اسے سیدھا کرنے کی کوشش سے طلاق کی نوبت آسکتی ۔
یہاں پر اچھی طرح سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا ذکر کرکے اس کا عیب بیان نہیں کیا جا رہا ہے، اس لئے ہر ٹیڑھی چیز بری نہیں ہوتی ۔اگر ساری چیزیں سیدھی ہوا کرتیں تو کوئی حسن وجمال باقی نہ رہتا ۔
مثلا اگر سارے درخت سیدھے اور چوکور ہوتے تو کوئی حسن وجمال باقی رہتا؟ 
اگر پہاڑ عمارتوں کی طرح بالکل مربع یا مستطیل ہوتے تو ان میں سے کوئی دیکھنے کے قابل نہ ہوتا؟ 
اگر پھول پتیاں بالکل سیدھی یا چوکور ہوتیں تو ان میں کوئی حسن پیدا ہوتا؟ 
  جس طرح ان سب کے اندر حسن وجمال اور خوبی اسی ٹیڑھ پن میں ہے، اسی طرح پسلی کا حسن اس کے ٹیڑھ پن میں ہے ۔اگر پسلیاں بالکل سیدھی ہوتیں تو کیا انسان کی ساخت ایسی مناسب ہو سکتی تھی؟ ہر گز نہیں، معلوم ہوا کہ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ پسلی ٹیڑھی ہو۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ عورت سو فیصد تمہاری مرضی اور مزاج کے مطابق ہو بلکہ اس کے اور تمہارے مزاج کے درمیان فرق رہے گا ۔جس کی وجہ سے تمہیں اس کی بعض باتیں مزاج کے خلاف نظر آئیں گی ۔تمہیں ان باتوں کو برداشت کرنا ہوگا ۔اگر برداشت نہیں کروگے تو پسلی ٹوٹ جائیگی یعنی طلاق دینے کی نوبت آپہنچے گی ۔
اس لئے مسلمانوں کو عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور بے رحمی کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے، انہیں باندی اور مفت کی خادمہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کے ساتھ ہمدردی و غمگساری اور حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہیے ۔ حالانکہ عورتوں اور مردوں کے درمیان مساوات ممکن نہیں، عورتوں کی ساخت الگ ہے، مردوں کی ساخت جدا ہے، عورت کی ذمہ داریاں الگ ہیں، مرد کے فرائض الگ ہیں، عورت کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ گھر کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھاسکے اور مرد کی ساخت ایسی ہے کہ وہ بیرونی معاملات کو سلجھائیں، اس لئے دونوں میں برابری نہیں ہوسکتی ۔دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے ۔
البتہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور عورت کو وہ مرتبہ دیا کہ کسی دوسرے دین و مذہب نے وہ مقام نہیں دیا ۔اسلام نے تو عورت کو بہت بلند مرتبہ عطا فرمایا تھا، لیکن ہمارے ناواقف لوگوں نے یہ حرکت کی ہے کہ وہ عورتوں پر ظلم و تشدد اور سختیاں کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے دین بدنام ہوتا ہے ۔اس سے بچنا ضروری ہے ۔آپ خود بھی اس سے بچی اور یہ پیغام دوسروں تک بھی پہنچائیں ۔
اللہ رب العزت ہمیں عورتوں کی حق تلفی کرنے سے محفوظ فرمائے اور انکے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین 

دعاؤں کا طالب /
شفيع اللہ الندوی 
خادم التدريس -جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن بہار -الھند

Comments

  1. اللّٰہ رب العزت ہمیں حقوقِ نسواں کا پورا پورا خیال رکھنے کی توفیق دے

    ReplyDelete
  2. अल्लाह पाक हमें भी तौफीक दे

    ReplyDelete

Post a Comment